تاریخ اسلام.. قسط نمبر 4..
پچھلی قسط میں قصی بن کلاب کا ذکر کیا گیا.. ایک روایت کے مطابق انہی کا لقب قریش تھا جسکی وجہ سے انکی آل اولاد کو قریش کہا جانے لگا.. جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق قصی بن کلاب سے چھ پشت پہلے بنی اسمائیل میں "فہر بن مالک" ایک بزرگ تھے جن کا لقب قریش تھا..
خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جسکی وجہ قصی بن کلاب اور انکی اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی عزت و سیادت حاصل ھوگئی تھی.. اور پھر اس قریش (آل قصی بن کلاب) نے خود کو اسکے قابل ثابت بھی کیا..
قصی بن کلاب نے نہ صرف خانہ کعبہ کا جملہ انتظام و انتصرام کا بندوبست کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکہ کو باقائدہ ایک ریاست کا روپ دے کر چھ مختلف شعبے قائم کیے اور انہیں قابل لوگوں میں تقسیم کیا.. جسے انکی وفات کے بعد انکے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا.. اور یہی نظام بعث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابیہ وسلم تک بڑی کامیابی سے چلایا گیا..
اس تقسیم کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابیہ وسلم کے جد امجد حضرت ھاشم کو سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے کا کام) ' عمارۃ البیت (حرم میں نظم و ضبط قائم رکھنا اور احترام حرم کا خیال رکھنا) اور افاضہ (حج کی قیادت کرنا) کی خدمات سونپی گئیں.. جو انکے بعد بنو ھاشم کے خاندان میں نسل در نسل چلتی رھیں..
حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. نہائت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. انہوں نے شاہ حبشہ اور قیصر روم سے بھی اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جبکہ مختلف قبائل عرب سے بھی معاھدات کرلیے.. انکی اس پالیسی کی وجہ سے قریش کے باقی قبائل میں بنو ھاشم کو ایک خصوصی عزت و احترام کا مقام حاصل ھوگیا تھا..
انکے علاوہ میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور علم برداری کا شعبہ خاندان بنو امیہ کے حصے میں آیا.. لشکر قریش کا سپہ سالار بنو امیہ سے ھی ھوتا تھا.. چنانچہ "حرب" جو حضرت ھاشم کے بھتیجے امیہ کے بیٹے تھے ' انکو اور انکے بیٹے حضرت ابوسفیان کو اسی وجہ سے قریش کے لشکر کی قیادت سونپی جاتی تھی..
جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو تیم بن مرہ کو اشناق یعنی دیوانی و فوجداری عدالت ' دیت و جرمانے کی وصولی اور تعین کی ذمہ داری سونپی گئی..
اس کے علاوہ شعبہ سفارت حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں آیا.. انکا کام دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات ' معاھدات اور سفارت کاری تھا..
بنو مخزوم جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا.. انکے حصے میں "قبہ و اعنہ" کا شعبہ آیا.. انکا کام قومی ضروریات کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا اور فوجی سازوسامان اور گھوڑوں کی فراھمی تھا.. قریش کے گھڑسوار دستے کا کمانڈر بھی اسی قبیلے سے ھوتا تھا.. اپنا وقت آنے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مدتوں شہہ سوار دستوں کی کمان نہائت خوش اسلوبی سے سنبھالی..
اسی طرح باقی پانچ شعبوں کی ذمہ داری مختلف قبائل قریش کے حوالے کردگئی..